عفو و درگزر اور ہمار ا معاشرہ / Forgiveness and our society


عفو ودرگزر

🖋کالم علامہ ابتسام الہی ظہیر 
عفو و درگزر اور ہمار ا معاشرہ / Forgiveness and our society

ہمار ا معاشرہ اس وقت عدم  معمولی معمولی تنازعات پر لوگ ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ مجھے بھی آئے دن مختلف طرح کے کیسیز کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے‘ جن میں تنازع کا سبب انتہائی معمولی ہوتا ہے۔ کسی شخص نے کسی کی مرضی بغیر اس کی دکان کے سامنے موٹر سائیکل کو کھڑا کر دیاتو تنازع پیدا ہو جاتا ہے‘ کسی نے کسی کو اونچی آواز سے پکار دیا تو بھی تنازع شروع ہو جاتا ہے‘ اسی طرح گھریلو سطح پر بھی آئے دن جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان جھگڑوں کے دوران اپنی بیوی کے ساتھ تشدد‘ ظلم اور بربریت کی انتہا پر پہنچ جاتے ہیں‘ اسی طرح یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ معمولی معمولی تنازعات پر ہنستے بستے گھر اُجڑ جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ بہت سے خاندانوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر سگے بھائی ایک دوسرے سے برس ہا برس تک کلام نہیں کرتے اور شادی بیاہ یا کسی عزیز کی وفات پر ملاقات 
کے علاوہ کے ہر قسم کے سماجی تعلقات کو منقطع کر دیا جاتا ہے۔

In our society right now, people are killing each other over extraordinary conflicts. I also have the opportunity to witness a variety of cases in which the cause of the controversy is very minor. If a person parks a motorbike in front of his shop without anyone's consent, a dispute arises. Even if someone shouts at someone loudly, a dispute arises. Similarly, disputes arise at the domestic level. Keep happening Many people reach the extremes of violence, cruelty and barbarism with their wives during these quarrels. ۔ In many families, siblings do not talk to each other over small matters year after year, and all social relations are severed, except for marriage or the death of a loved one.

 
ہم سڑک پر آتے جاتے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اُلجھتا ہوا دیکھ سکتے ہیں اور یہ بات محسوس کی جاتی ہے کہ اس الجھاؤ کی وجہ کئی مرتبہ کسی گاڑی کا اونچی آواز سے ہارن دینا یا کسی کا اوور ٹیک کرنا بن جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت ِانسان ہم سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور انسانی بھائی چارے کے ناتے ہمیں اپنی زندگی میں برداشت اور عفوو درگزر کی اشد ضرورت ہے۔
We can see people coming and going on the road, and it is felt that the cause of this confusion is sometimes the loud honking of a car or the overtaking of someone. We need to understand that as human beings we are all descendants of Adam and as human brothers we desperately need tolerance and forgiveness in our lives.


اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو بہت ہی خوبصورت انداز بیان کیا ہے۔ سیّدنا یوسف علیہ السلام کے بھائی ان سے حسد کا شکار ہوئے اور انہوں نے ان کو اپنے بابا حضرت یعقوب ؑکی آنکھوں سے جدا کرکے ایک اندھے کنویں میں اتار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کی مدد کی اور ایک قافلہ جو مصر کو جا رہا تھا‘ وہ آپ کو لے کر مصر پہنچا ‘جہاں پر آپ کو مصر کے ایک بڑے گھرا نے میں چند دیناروں کے عوض فروخت کر دیا گیا۔ بعدازاں حضرت یوسف ؑ کو زندگی میں بہت سے اُتار اور چڑھاؤ دیکھنا پڑے۔ آپ کو جیل خانے میں جانا پڑا اور آپ ایک لمبا عرصہ تک جیل میں قیدی کی حیثیت سے زندگی کے صبح وشام کو گزارتے رہے۔
Allah Almighty has narrated the incident of Hazrat Yusuf (as) in Surah Yusuf in a very beautiful way. Joseph's brothers became jealous of him and separated him from the eyes of his father Hazrat Yaqub and threw him into a blind well. Allah Almighty helped Prophet Yusuf and a caravan which was going to Egypt took him to Egypt where he was sold to a large Egyptian family for a few dinars. Later, Hazrat Yusuf (AS) had to go through many ups and downs in his life. You had to go to jail and you spent the morning and evening of your life as a prisoner for a long time. 


حضرت یوسف ؑ پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا اور اللہ نے آپ کو حکومت اور اقتدار سے نواز دیا۔ حکومت اور اقتدار میں آنے کے بعد جب عالمگیر قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو جہاں پر دیگر مقامات سے لوگ آپ کے پاس غلے کے حصول کے لیے آئے ‘آپ کے بھائی بھی غلے کے حصول کے لیے آپ کے پاس آئے‘ جن کو ایک حکمت کے ذریعے آپ نے اپنے بھائی حضرت بنیامین کو بھی اپنے پاس لانے پر آمادہ کیا۔ بعدازاں جب آپ کے بھائی حضرت بنیامین کو اپنے ہمراہ آپ کے پاس لے کر آئے تو آپ نے ایک تدبیر کے ذریعے اپنے بھائی حضرت بنیامین کو اپنے پاس روک لیا۔ اس موقع پر حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے آپ پر چوری کا الزام لگایا۔ حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کی ان تمام زیادتیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور موقع ملنے کے باوجود اُن سے کسی بھی قسم کا مواخذہ نہیں کیا۔
Hazrat Yusuf was blessed by Allah Almighty and Allah blessed him with government and power. After the government and the government came to power, when the global famine engulfed the whole world, where people from other places came to you for grain, 'your brothers also came to you for grain'. By a wisdom you persuaded him to bring his brother Benjamin to you. Later, when your brother brought Hazrat Benjamin with him, he stopped his brother Hazrat Benjamin with a ploy. On this occasion, Hazrat Yusuf's brothers accused him of theft. Hazrat Yusuf (AS) tolerated all these abuses of his brothers with a smile on his face and despite the opportunity he did not accuse them in any way.

 
نبی کریم ﷺ کفار مکہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے تھے۔ کفار مکہ آپﷺ کی دعوت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے اور آپﷺ کے جانی دشمن بن گئے۔ انہوں نے آپﷺ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا‘ آپﷺ پر تشددکیا‘ آپﷺ گلوئے اطہر میں چادر کو ڈال کے بھینچا۔ آپ ﷺ نے ان تمام مظالم اور شقاوتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ طائف کی وادی میں ظالموں نے زیادتی کی انتہا کر دی اور آپﷺ کے جسم اطہر کو لہو رنگ بنادیا گیا‘ ایسے عالم میں پہاڑوں کا فرشتہ بھی حضرت جبرئیل ؑ کے ہمراہ آیا اور یہ بات عرض کیا کہ اگر آپ حکم کریں تو طائف کی اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر بدعا کرنے کی بجائے اپنی قوم کی ہدایت کی دعا کی۔رسول اللہ ﷺ کو مکہ مکرمہ سے بڑی محبت اور پیار تھا اور بیت اللہ کی ہمسائیگی آپﷺ کو انتہائی عزیز تھی‘ لیکن کفار مکہ نے آپﷺ کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا اور بعدازاں بہت سی جنگوں کو اہل مدینہ پر مسلط کیا۔ بہت سی جنگوں میں حضرت رسول اللہﷺ مسلمانوں کے ہمراہ اسلام اور سر زمین اسلام کے دفاع کے لیے میدان عمل میں اترے اور خندہ پیشانی سے ان جنگوں کے دوران آنے والی تکالیف کو برداشت کیا۔ بہت سے غزوات کے بعد اللہ تعالیٰ نے مکہ میں آپﷺ کو فاتح کی حیثیت سے داخل فرما دیا۔ اس موقع پر بہت سے لوگ ‘جنہوں نے شقاوت اور بدبختی کا مظاہرہ کیاتھا مجرم کی حیثیت سے نبی کریمﷺ کی بارگاہ رسالت مآب میں پیش ہوئے ‘لیکن نبی کریمﷺ نے اس موقع پر ان کے ساتھ عفوودگزر والا معاملہ کیا اور ان سے کسی بھی قسم کا انتقام نہ لیا اور ان کو معاف فرما دیا۔
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) used to invite the disbelievers to Makkah for the religion of Allaah. The disbelievers of Makkah did not accept his invitation and became his mortal enemies. They spread thorns in his path, tortured him, and threw the chador in his throat. He endured all these atrocities and atrocities with a smile on his face. In the valley of Taif, the oppressors put an end to the aggression and the body of the Prophet (peace be upon him) was turned into blood. He came with Gabriel and asked him to grind this valley of Taif between two mountains if he ordered. Instead of praying on this occasion, the Holy Prophet prayed for the guidance of his people. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) loved Makkah very much and the neighborhood of the House of Allaah was very dear to him, but the disbelievers of Makkah forced him to emigrate and Later he imposed many wars on the people of Madinah. In many wars, the Holy Prophet, along with the Muslims, took to the field to defend Islam and Islam on earth and endured the hardships of those wars with a smile on his face. After many conquests, Allah Almighty admitted him in Makkah as a conqueror. On this occasion, many people who had shown mischief and misfortune appeared before the Holy Prophet (sws) as criminals, but the Holy Prophet (sws) dealt with them on this occasion in a forgiving manner and did not allow them to do anything. He did not take revenge and forgave them.


 
انبیائے سابقہ اور حضرت یوسف ؑ کے بعد نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے اعلیٰ اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی غلطیوں اور زیادتیوں کو معاف کرنے پر آمادہ وتیار رہے‘ جو شخص انتقام کی بجائے عفوودرگزر والا رویہ اختیار کر تا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کو آخرت کی سربلندیوں کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سربلند فرما دیتے ہیں اورا س کے مد مقابل جو شخص ہمہ وقت انتقامی جذبے کے زیر اثر رہتا ہے ‘جہاں پر وہ دل کی تنگی اور گھٹن کا شکار ہو جاتا ہے‘ وہیں پر لوگ بھی اس کے بارے میں 
کراہت اور تنگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے اور گردوپیش میں نظر دوڑا کر اس چیز کا باآسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ جو عفوودرگزر کے اعلیٰ اوصاف سے بہرہ ور ہوتے ہیں ‘اللہ تعالیٰ ان کو عزت اور سرفرازی سے ہمکنار کر دیتا ہے اور وہ لوگ جو ہمہ وقت تشدد ‘ انتقام‘ نفرت اور حسد کا شکار رہتے ہیں وہ لوگ اپنی آخرت کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی قابل نفرت ٹھہرتے ہیں اور لوگ ان کے شر سے بچنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ 
It is clear from the blessed life of the Holy Prophet after the previous Prophets and Hazrat Yusuf that the requirement of man's high moral character is that he should be ready to forgive the mistakes and excesses of other human beings. Allah Almighty exalts him in the Hereafter as well as in this world, and his opponent is the one who is always under the influence of vengeance. He gets victimized. People there also talk about it They become disgusted and distressed. We can easily observe in our society and around us that those who enjoy the highest attributes of forgiveness, Allah Almighty bestows them with honor and dignity and those who are always violent. 'Vengeance' is a victim of hatred and jealousy. They destroy their Hereafter as well as are hated in this world and people try to avoid their evil.


کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے معاشرے میں برداشت ‘ صبر‘ تحمل‘ بردباری‘ مساوات اور جذبہ اخوت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اسلام دنیا کا واحد ایسا دین ہے‘ جس نے حالت جنگ میں بھی اخلاقی اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اسلام کی سربلندی کے لیے لشکر کشی کرنے والوں کو عورتوںاور بچوں کو قتل کرنے سے قلعی طور پر روک دیا گیا۔ اسلام کے جنگی اصولوں پر جب غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میںآتی ہے کہ اسلام جنگ بھی انسانوں کی نسل کشی یا معاشروں کی بیخ کنی کے لیے نہیں کرتا‘ بلکہ اس مقام پر بھی شرف انسانیت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنے کی بھر پور انداز میں کوششیں کی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کی بہت سی احادیث مبارکہ سے بھی عفوردرگزر کی اہمیت بہت ہی خوبصورت انداز میں اجاگر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک حدیث درج ذیل ہے:۔ 
صحیح بخاری میں حضرت خذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: '' تم سے پہلے گزشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس (موت کے وقت) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں؟ روح نے جواب دیا کہ میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں کو (جو ان کے مقروض ہوں) مہت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔ راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا‘ پھر فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیا اور سختی نہیں کی۔
Tolerance, patience, forbearance, tolerance, equality and the spirit of brotherhood are essential for the development of any society. Islam is the only religion in the world that highlighted the importance of moral principles even in times of war, and those who fought for the glory of Islam were fortunately barred from killing women and children. When one considers the war principles of Islam, it is clear that Islam does not wage war for the genocide of human beings or for the uprooting of societies. Every effort is made to comply. Many hadiths of the Holy Prophet (PBUH) also highlight the importance of forgiveness in a very beautiful way. The following is a hadith in this regard:

In Sahih Bukhari, it is narrated from Hazrat Khuzayfa that the Holy Prophet said: “Angels came to the soul of a person before you (at the time of death) and asked him, 'Have you done any good deeds?' The Spirit replied that I used to tell my servants to give importance to the rich people (who are indebted to them) and not to be harsh on them and to forgive the needy. The narrator narrated that the Holy Prophet said, "Then the angels also forgave him and did not be harsh."

اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عفوودرگزر کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
We pray to God Almighty to help us all to take the path of forgiveness. (Amen)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

" قصـــــــور شہر "اوراسکی تاریخ / صوبہ پنجاب پاکستان کا ایک قدیم شہر اور تاریخی شہر / "Kasur City" and its history / Punjab Province An ancient city and historical city of Pakistan

تخم بالنگا کے فائدے (علاج بالغذاء) / Benefits of Takhm Balanga (Nutritional Treatment)