Real life & success ? اصل زندگی [with english Translate]

Real life & success ? اصل زندگی [with english Translate]💐❤
جاوید صاحب اصل زندگی یہی ھے !

 
بیٹا فرش پر بیٹھا تھا‘ والد کے پاؤں گرم پانی کی بالٹی میں تھے‘ وہ والد کے پاؤں باہر نکالتا تھا‘ تپائی پر رکھتا تھا‘ روئی سے صاف کرتا تھا‘ سکریب کرتا تھا اور دوبارہ پانی میں رکھ دیتا تھا‘ وہ مساج والا لگ رہا تھا‘ اس نے اگر سوٹ نہ پہنا ہوتا  یا اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا یہ اس دفتر‘ اس کمپنی اور اس فیکٹری کا مالک ہے۔

میں اسے ملازم یا مساج والا ہی سمجھتا‘ وہ مالک تھا لیکن وہ زمین پر بیٹھا تھا۔اس کا والد کرسی پر تھا اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے پاؤں دھو رہا تھا‘ وہ فارغ ہوا‘ اس نے تولیے سے والد کے پاؤں صاف کیے‘ بالٹی اٹھائی‘ باتھ روم میں گیا‘ پانی الٹا‘ ہاتھ دھوئے‘ خشک کیے اور میرے سامنے بیٹھ گیا۔
Javed sahib this is real life!
The son was sitting on the floor. His father's feet were in a bucket of hot water. He would take his father's feet out. He would put them on a tripod. He would wipe them with a cotton ball. He would scrub them. If he hadn't worn a suit or if I hadn't known, he would have owned this office, this company and this factory.
I thought he was an employee or a massage therapist. He was the owner but he was sitting on the ground. His father was in a chair and he was washing his feet with both his hands. He finished. He wiped his father's feet with a towel. He picked up the bucket, went to the bathroom, turned the water upside down, washed his hands, dried it and sat down in front of me.


 میں نے مدت بعد کسی شخص کو اپنے والد کی اتنی خدمت کرتے دیکھا تھا‘ میں حیران بھی تھا اور شرمندہ بھی‘ میرے والد پوری زندگی میرے ساتھ رہے تھے‘ میں ان کی اس طرح خدمت کرنا چاہتا تھا لیکن میں شرمیلے پن اور سستی کی وجہ سے ان کے پاؤں نہ دھو سکا۔میں مصروفیت کی وجہ سے آخری دنوں میں ان سے روزانہ ملاقات بھی نہ کر سکا لہٰذا میں جب بھی اور جہاں بھی کسی کو اپنے بوڑھے والد کا ہاتھ پکڑے دیکھتا ہوں یا ان کے پاؤں دھوتے یا کندھے دباتے دیکھتا ہوں تو میرے افسوس میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ میں اس وقت بھی دکھی اور خاموش بیٹھا تھا‘ وہ دونوں باپ بیٹا تھوڑی دیر مجھے دیکھتے رہے اور پھر بیک وقت بول پڑے

*’’جاوید صاحب اصل زندگی یہی ہے‘‘* 
After a while I saw someone serving my father so much. I was shocked and embarrassed. My father lived with me all my life. I wanted to serve him like this, but I was shy and lazy. I could not wash his feet. I could not meet him daily in the last few days due to my busy schedule, so whenever and wherever I see someone holding my old father's hand or washing his feet or pressing his shoulders. When I am, my grief increases. I was sad and silent even then. Both father and son kept looking at me for a while and then spoke at the same time.

* "This is the real life of Javed Sahib" *

میں نے چونک کر پہلے بیٹے کی طرف دیکھا اور پھر باپ کی طرف‘ وہ دونوں مسکرا کر میری طرف دیکھ رہے تھے‘ دونوں کے چہروں پرسکون اور خوشی تھی۔

میں نے مدت بعد کسی کے چہرے پر اتنی خوشی اور اتنا سکون دیکھا تھا۔والد نے ہاتھ ملے اور میری طرف دیکھ کر بولا ’’میں نے یہ اپنے باس سے سیکھا تھا‘

 میں جوانی میں فیصل آباد کی ایک مل میں اکاؤنٹنٹ بھرتی ہو گیا‘ میں مالک کے قریب تھا لہٰذا میری اس سے روز ملاقات ہوتی تھی‘ میں نے دیکھا میرا مالک سرمایہ کاری کے خبط میں مبتلا ہے‘ اس کی جیب میں دس روپے بھی بچ جاتے تھے تو وہ انھیں بھی کاروبار میں لگا دیتا تھا‘ وہ دن رات کام کرتا تھا‘ فیکٹری کے بعد امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس‘ شاپنگ پلازے اور کرائے کے مکان اور اگر وقت بچ جاتا تو وہ یہ وقت گاڑیوں کی خریدوفروخت اور جائیداد کے لین دین میں صرف کر دیتا‘ وہ پیسے بنانے کی مشین تھا‘ وہ ہر ملاقات‘ ہر کام کے بعد سوچتا تھا مجھے اس کا کیا فائدہ ہوا؟
I saw so much joy and so much peace on someone's face after a while. My father shook my hand and looked at me and said, "I learned this from my boss."
In my youth I was hired as an accountant in a mill in Faisalabad. I was close to the owner so I used to meet him every day. I saw that my boss was obsessed with investing. If he had even ten rupees left in his pocket, he would invest it in business. He would work day and night. After factory, import-export business. Shopping plaza. And a rented house and if he had time, he would have spent that time buying and selling cars and dealing in property. He was a money-making machine. He thought after every meeting. What was the use of that for me?

لوگ اس کے بارے میں کہتے تھے وہ پیسوں کے بغیر چھینک بھی نہیں مارتا‘ اسے اگر خارش بھی ہوتی تھی تو وہ خارش پر وقت ضائع کرنے کے بجائے نوٹ گنتا تھا‘ وہ ان کاروباری مصروفیات کی وجہ سے بچوں پر توجہ نہ دے سکا‘ اس نے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کرایا مگر بچے پڑھ نہ سکے‘ آپ یہ بات ذہن میں رکھیں بچوں کو ٹیوٹر‘ اسکول یا کالج نہیں پڑھاتے والدین پڑھاتے ہیں‘ والدین اگر بچوں پر توجہ نہ دیں‘ یہ اگر انھیں وقت اور محبت نہ دیں تو آپ انھیں خواہ آکسفورڈ میں داخل کرا دیں یہ تعلیم مکمل نہیں کر سکتے۔

People used to say that he would not sneeze without money. Even if he had itching, he would count the notes instead of wasting time on itching. He could not pay attention to the children due to his busy schedule. Enrolls children in higher education institutions but children can't read 'Keep in mind that tutors don't teach children in school or college' Parents teach 'If parents don't pay attention to children' If they don't give them time and love So even if you enroll them in Oxford, you can't complete this education.

بچوں کو والدین کی توجہ اور محبت چاہیے ہوتی ہے‘ بچے پھل ہوتے ہیں اور والدین کی محبت اور توجہ سورج اور چاند‘ یہ دونوں جب تک انھیں روشنی نہیں دیتے پھلوں میں اس وقت تک رس نہیں آتا‘ یہ نہیں پکتے‘ میرے سیٹھ کے بچے بھی والد کی توجہ اور محبت سے محروم تھے چناں چہ وہ کچے رہ گئے‘ بڑا بیٹا تعلیم کے لیے امریکا گیا‘ گوری سے شادی کی‘ کرسچین ہوا اور کبھی واپس نہ آیا‘ دوسرا نشے کی لت کا شکار ہو گیا‘ بیٹی نے مرضی کی شادی کر لی‘ والد نے رو پیٹ کر شادی قبول کر لی‘ وہ داماد کو کاروبار میں لے آیا۔داماد کاروبار اور بیٹی دونوں کو کھا گیا‘ آخر میں نتیجہ طلاق نکلی اور سب سے چھوٹا بیٹا نالائق تھا‘ وہ دن رات فضول اور نالائق دوستوں میں بیٹھا رہتا تھا اور دونوں ہاتھوں سے والد کی دولت اڑاتا رہتا تھا‘ والد روکتا تھا تو وہ اس کے گلے پڑ جاتا تھا اور سیٹھ کے بھائی‘ سالے اور بہنوئی تمام غلط انسان تھے‘ وہ بار بار اسے دھوکا دے چکے تھے‘ وہ ان سے الرجک تھا‘ یہ تمام ایشوز اکٹھے ہوئے‘ سیٹھ اسٹریس میں گیا‘ بیمار ہوا اور تیزی سے میڈیکل اسٹور بنتا چلا گیا۔اس نے شراب پینا بھی شروع کر دی یہاں تک کہ ایک دن اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فیکٹری کے گیٹ پر گر کر انتقال کر گیا‘ بس سیٹھ کے مرنے کی دیر تھی اس کی ہر چیز تباہ ہو گئی‘ وراثت تقسیم ہوئی اور بچوں نے وہ ساری دولت چند ماہ میں اڑا دی تھی۔
Children need the attention and love of their parents. Children are fruits and the love and attention of parents is the sun and the moon. Unless both of them give them light, the fruit does not become juicy. It does not ripen. He was also deprived of his father's attention and love so much that he remained raw. The eldest son went to America for education. He married a white woman. He became a Christian and never came back. The other became addicted to drugs. The daughter agreed. He got married. The father cried and accepted the marriage. He brought the son-in-law into the business. The son-in-law ate both the business and the daughter. In the end the result was divorce and the youngest son was incompetent. He used to sit among his friends and used to squander his father's wealth with both hands So he would hug her and Seth's brother-in-law and brother-in-law were all wrong people. He had cheated on her again and again. He was allergic to them. All these issues came together. Seth went into stress. It quickly became a medical store. He even started drinking. One day he had a heart attack and he fell at the gate of the factory and died. It was too late for Seth to die. Everything was destroyed. The inheritance was divided and the children squandered all that wealth in a few months.

جسے جمع کرنے اور سنبھالنے میں سیٹھ نے پوری زندگی لگا دی تھی‘ اس کی بیگم نے بھی بڑھاپے میں اپنے منیجر سے شادی کر لی‘بھائیوں کے پاس جو کچھ تھا وہ اس پر قابض ہو گئے۔جو کچھ نشئی بیٹے کو ملا اس نے وہ نشے میں ڈبو دیا اور جو نالائق بیٹے کے ہاتھ آ گیا اس نے وہ مجروں میں ضائع کر دیا چناں چہ میری آنکھوں کے سامنے وہ ساری ریاست‘ وہ ساری ایمپائر زمین بوس ہو گئی‘ اکاؤنٹس میں تنخواہوں اور بجلی کے بل تک کے پیسے نہ بچے‘ میں نے استعفیٰ دیا اور نوکری چھوڑ کر آ گیا‘ میں جب فیکٹری کے گیٹ سے نکل رہا تھا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا 
Seth had spent his whole life collecting and handling it. His wife also got married to her manager in her old age. The brothers took possession of what they had. He got drunk and lost it in the hands of an incompetent son, so that in front of my eyes the whole state, the whole empire collapsed, there was no money left in the accounts, not even the salaries and electricity bills. 'I resigned and quit my job,' I asked myself as I walked out of the factory gate.

محمد صفدر دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کیا ہے 

میرے اندر سے آواز آئی

 ’’بھلائی کے کام اور نیک اولاد‘‘ 

چناں چہ میں نے فیصلہ کیا ’’میں باقی زندگی دوسروں کے ساتھ بھلائی کروں گا اور اپنی ساری توجہ اپنی اولاد پر دوں گا‘‘۔

وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ’’جاوید صاحب! آپ یقین کریں میں نے اس کے بعد زندگی میں کبھی ایک پیسے کی بچت نہیں کی‘ میں نے گاڑی تک نہیں خریدی اور گھر تک نہیں بنایا‘ میں جو کماتا تھا وہ میں اپنے خاندان پر لگا دیتا تھا‘ میں اپنے بچوں کو روز اسکول چھوڑ کر آتا تھا‘ لنچ بریک کے دوران دوبارہ اسکول جاتا تھا اور اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا کر واپس آتا تھا‘ میرے بچے جانتے تھے اگر یہ کھانا نہیں کھائیں گے تومیں بھی اس دن لنچ نہیں کروںگا۔
Muhammad Safdar What is the biggest investment in the world
A voice came from inside me
So I decided that what I really needed to do was learn how to do it right for the rest of my life.
"Good deeds and good children."
He paused, took a deep breath and said, "Javed Sahib!" Believe me, I never saved a penny in my life after that. I didn't even buy a car or build a house. I used to spend what I earned on my family. I drop my children off at school every day. I used to go back to school during lunch break and feed my children with my own hands. My children knew that if they would not eat this food, I would not have lunch that day either.

لہٰذا یہ میری اور میں ان کی خاطر لنچ کرتا تھا‘ میں روز ان کے جوتے بھی پالش کرتا تھا‘ ان کی یونیفارم بھی دھو کر استری کرتا تھا۔میں روز انھیں گراؤنڈ بھی لے کر جاتا تھا‘ ان کے ساتھ کھیلتا بھی تھا اور واپسی پر گرم پانی سے ان کے پاؤں بھی دھوتا تھا‘ میں اپنے ہاتھ سے اپنی بیٹی کے سر میں تیل بھی لگاتا تھا اور کنگھی بھی کرتا تھا‘ میری ساری خوشیاں‘ میرے سارے غم میرے بچے تھے‘ یہ ہنستے تھے تو میں ہنستا تھا‘ یہ پریشان ہوتے تھے تو میں پریشان ہو جاتا تھا‘ اس محبت اور اس توجہ نے میرے اور ان کے درمیان ایک مضبوط بانڈ بنا دیا‘ ہم سب ایک یونٹ ہو گئے‘ یہ بڑے ہوئے‘ تعلیم مکمل کی اور اپنے اپنے کام شروع کر دیے‘ اللہ نے کرم کیا اور یہ ترقی کرنے لگے‘ یہ آج خوش حال بھی ہیں اور کام یاب بھی‘ میں آج بھی ان کے ساتھ لنچ کرتا ہوں۔میں جس دن اس دفتر نہ آؤں میرے بچے اس دن لنچ نہیں کرتے‘ بچوں نے شیڈول بنا رکھا ہے ان میں سے کوئی ایک روز میرے پاؤں دھوتا ہے اور دوسرا شام کو مجھے دباتا ہے اور میری بیٹی روز کھانا پکا کر مجھے بھجواتی ہے‘ یہ میری زندگی کی سرمایہ کاری تھی جب کہ میں نے پوری زندگی کسی کے ساتھ زیادتی‘ کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا‘ میں نے جب بھی کی لوگوں کے ساتھ بھلائی کی‘ میرا خیال ہے میری بھلائی میری آخری زندگی کی سرمایہ کاری ہے‘‘۔ وہ خاموش ہو گئے۔
So it was me and I used to have lunch for them, I used to polish their shoes every day, I used to wash and iron their uniforms, I used to take them to the ground every day, I used to play with them and come back. But I also used to wash their feet with hot water. I used to put oil on my daughter's head with my hands and also used to comb her. All my joys, all my sorrows were my children. I used to get upset when I was upset. This love and this attention made a strong bond between me and them. We all became one unit. They grew up. They completed their education and started their own work. Did good and it began to grow ' They are both happy and successful today. I still have lunch with them. My children do not have lunch on the day I come to this office. The children have made a schedule. Washes and the other presses me in the evening and my daughter cooks me food every day and sends it to me. It was an investment of my life when I abused someone all my life. "I think my goodness is the investment of my last life." They fell silent.

ملازم نے اس دوران میز پر کھانا لگا دیا‘ بیٹے نے والد کی ویل چیئر کھینچی‘ میز کے ساتھ لگائی‘ گلے میں نیپکن باندھا اور ہاتھ سے پہلا لقمہ توڑ کر اس کے منہ میں رکھا‘ والد نے اس لقمے کے بعد اپنے ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا‘ میں دونوں کو رشک سے دیکھنے لگا‘ والد کے دوسرے دونوں بیٹے بھی اس دوران آ گئے اور وہ بھی کھانے میں شریک ہو گئے‘ ایک بیٹا بینک میں منیجر تھا اور دوسرا ملٹی نیشنل کمپنی میں اکاؤنٹنٹ تھا‘ یہ دونوں روز لنچ بریک کے دوران تیسرے بھائی کے دفتر میں آتے ہیں اور یہ چاروں اکٹھے کھانا کھاتے ہیں‘ میں نے کھانے کے دوران میزبانوں سے ان کی والدہ کے بارے میں پوچھا‘ پتہ چلا وہ انتقال فرما چکی ہیں۔میں دو گھنٹے ان کے ساتھ رہا‘ ملازم بیٹے کھانے کے بعد اپنے دفتروں میں چلے گئے جب کہ بزنس مین بیٹا اور وہ دیر تک میرے ساتھ بیٹھے رہے‘ میں رخصت ہونے لگا تو والد میرا ہاتھ دبا کر بولا 
The servant put the food on the table. The son pulled his father's wheelchair. He put it on the table. He tied a napkin around his neck and broke the first bite with his hand and put it in his mouth. 'I started to look at both of them with envy' The other two sons of the father also came during this time and they also joined in the meal. One son was a manager in a bank and the other was an accountant in a multinational company. These two come to the office of the third brother during lunch break every day. The four of them eat together. I asked the hosts about their mother during the meal. I found out that she had passed away. I stayed with her for two hours. The employee's son went to his offices after the meal while the business. My son and he sat with me for a long time. When I started to leave, my father shook my hand and spoke

’’جاوید بیٹا! انسان کی اصل سرمایہ کاری اولاد اور نیکی ہوتی ہے لیکن زیادہ تر لوگ دولت کی جمع ضرب کے دوران یہ سرمایہ منفی کر بیٹھتے ہیں اور یوں خسارے میں جا گرتے ہیں‘ آپ لوگوں کو بتائیں ان کا *اصل سرمایہ ان کی اولاد اور بھلائی ہے*‘ یہ ان دونوں قسم کے سرمائے کو کسی قیمت پر ضائع نہ ہونے دیں‘ ان کی زندگی بھی جنت بن جائے گی اور آخرت بھی‘ یہ دونوں جہاں میں سرخرو ہو جائیں گے ورنہ دنیا میں دولت سے بڑی حماقت اور مصروفیت سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں۔
"Son of Javed! Man's real investment is children and goodness, but most people during the accumulation and multiplication of wealth, this capital becomes negative and thus goes into deficit. You tell people that their * real capital is their children and goodness * 'Let not these two kinds of capital be wasted at any cost.' Their life will become paradise and the Hereafter too. ' no.

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

" قصـــــــور شہر "اوراسکی تاریخ / صوبہ پنجاب پاکستان کا ایک قدیم شہر اور تاریخی شہر / "Kasur City" and its history / Punjab Province An ancient city and historical city of Pakistan

تخم بالنگا کے فائدے (علاج بالغذاء) / Benefits of Takhm Balanga (Nutritional Treatment)