Valley Trader / * گھاٹے کے سوداگر * [With Translate English]
Valley Trader / * گھاٹے کے سوداگر *
ہنری کا تعلق امریکہ کے شہر سیاٹل سے تھا وہ مائیکرو سافٹ میں ایگزیکٹو منیجر تھا۔ اس نے 1980ء میں جارج واشنگٹن
یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد مختلف کمپنیوں سے ہوتا ہوا مائیکرو سافٹ پہنچ گیا.
Henry was from the US city of Tourism and was the executive manager at Microsoft. He received a master's degree in computer science from George Washington University in 1980 and has since moved to Microsoft from various companies.
مائیکرو سافٹ اس کے کیرئیر میں ’’ ہیلی پیڈ ‘‘ ثابت ہوئی اور وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا ، وہ 1995ء میں کمپنی میں بھاری معاوضہ لینے والے لوگوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا جب تک ہنری کسی سافٹ وئیر کو مسکرا کر نہ دیکھ لے مائیکرو سافٹ اس وقت تک اسے مارکیٹ نہیں کرتی ، ہنری نے کمپنی میں یہ پوزیشن بڑی محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی وہ دفتر میں روزانہ 16 گھنٹے کام کرتا تھا ، وہ صبح 8 بجے دفتر آتا تھا اور رات بارہ بجے گھر جاتا تھا.
Microsoft proved to be the "helipad" of his career, doubling day and quadrupling night, he was one of the highest paid people in the company in 1995 and was talked about until Henry Don't smile at any software Microsoft doesn't market it till now, Henry got this position in the company with a lot of hard work and struggle, he worked 16 hours a day in the office, he came to the office at 8 o'clock in the morning. And went home at twelve o'clock at night.
ہنری کا ایک ہی بیٹا تھا ، ہنری دفتری مصروفیات کے باعث اپنے بیٹے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا ، وہ جب صبح اٹھتا تھا تو اس کا بیٹا سکول جا چکا ہوتا تھا اور وہ جب دفتر سے لوٹتا تھا تو بیٹا سو رہا ہوتا تھا ، چھٹی کے دن اس کا بیٹا کھیلنے کے لیئے نکل جاتا تھا جبکہ ہنری سارا دن سوتا رہتا تھا.
1998ء میں سیاٹل کے ایک ٹیلی ویژن چینل نے ہنری کا انٹرویو نشر کیا ، اس انٹرویو میں ٹیلی ویژن کے میزبان نے اعلان کیا کہ ’’ آج ہمارے ساتھ سیاٹل میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی شخصیت بیٹھی ہے‘‘ کیمرہ میزبان سے ہنری پر گیا اور ہنری نے فخر سے مسکرا کر دیکھا ، اس کے بعد انٹرویو شروع ہو گیا ، اس انٹرویو میں ہنری نے انکشاف کیا وہ مائیکرو سافٹ سے 500 ڈالر فی گھنٹہ لیتا ہے.
Henry had only one son, Henry could not give his son much time due to office commitments, when he woke up in the morning his son had gone to school and when he returned from the office his son was asleep, On holidays, his son would go out to play, while Henry would sleep all day.
Henry was interviewed by a Seattle television channel in 1998, in which the television host announced that "the highest paid person in Seattle is sitting with us today." The camera went from the host to Henry. And Henry smiled proudly, then the interview started, in this interview Henry revealed that he charges ڈالر 500 per hour from Microsoft.
یہ انٹرویو ہنری کا بیٹا اور بیوی بھی دیکھ رہے تھے انٹرویو ختم ہوا تو ہنری کا بیٹا اٹھا ، اس نے اپنا ’’ منی باکس‘‘ کھولا ، اس میں سے تمام نوٹ اور سکے نکالے اور گننا شروع کر دیئے ، یہ ساڑھے چار سو ڈالر تھے ، ہنری کے بیٹے نے یہ رقم جیب میں ڈال لی ، اس رات جب ہنری گھر واپس آیا تو اس کا بیٹا جاگ رہا تھا ، بیٹے نے آگے بڑھ کر باپ کا بیگ اٹھایا ، ہنری نے جھک کر بیٹے کو پیار کیا ، بیٹے نے باپ کو صوفے پر بٹھایا اور بڑی عاجزی کے ساتھ عرض کیا ؛
’’ ڈیڈی کیا آپ مجھے پچاس ڈالر ادھار دے سکتے ہیں ‘‘
باپ مسکرایا اور جیب سے پچاس ڈالر نکال کر بولا ’’ کیوں نہیں میں اپنے بیٹے کو ساری دولت دے سکتا ہوں ‘‘
بیٹے نے پچاس ڈالر کا نوٹ پکڑا ، جیب سے ریزگاری اور نوٹ نکالے ، پچاس کا نوٹ ان کے اوپر رکھا اور یہ ساری رقم باپ کے ہاتھ پر رکھ دی ، ہنری حیرت سے بیٹے کو دیکھنے لگا ، بیٹے نے باپ کی آنکھ میں آنکھ ڈالی اور مسکرا کر بولا ’’ یہ پانچ سو ڈالر ہیں ، میں ان پانچ سو ڈالروں سے سیاٹل کے سب سے امیر ورکر سے ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں ‘‘ ہنری خاموشی سے بیٹے کی طرف دیکھتا رہا ، بیٹا بولا ’’ میں اپنے باپ سے صرف ایک گھنٹہ چاہتا ہوں ، میں اسے جی بھر کر دیکھنا چاہتا ہوں ، میں اسے چھونا چاہتا ہوں ، میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں ، میں اس کی آواز سننا چاہتا ہوں ، میں اس کے ساتھ ہنسنا ، کھیلنا اوربولنا چاہتا ہوں ،
Henry's son and wife were also watching this interview. When the interview was over, Henry's son got up, opened his "money box", took out all the notes and coins from it and started counting, it was four hundred and fifty dollars. Henry's son pocketed the money. The night Henry returned home, his son was awake. The son stepped forward and picked up his father's bag. Henry bowed and fell in love with his son. Sat on the sofa and asked with great humility;
"Daddy, can you lend me fifty dollars?"
The son grabbed the fifty dollar note, took the savings and the note out of his pocket, put the fifty note on top of it and put all the money in the father's hand. Henry looked at the son in surprise, the son looked the father in the eye and He smiled and said, "That's five hundred dollars. I want to buy an hour from Seattle's richest worker for those five hundred dollars." Henry silently looked at his son. I want the hour, I want to see her wholeheartedly, I want to touch her, I want to love her, I want to hear her voice, I want to laugh, play and talk with her,
"ڈیڈی کیا آپ مجھے ایک گھنٹہ دے دیں گے ، میں آپ کو اس کا پورا معاوضہ دے رہا ہوں.
"Daddy, will you give me an hour? I'm paying you in full."
ہنری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، اس نے بیٹے کو گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ۔ ہنری نے 1999ء میں
’’ فیملی لائف ‘‘ کے نام سے ایک آرٹیکل لکھا ، مجھے یہ مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا ، اس مضمون میں اس نے انکشاف کیا دنیا میں سب سے قیمتی چیز خاندان ہوتا ہے ، دنیا میں سب سے بڑی خوشی اور سب سے بڑا اطمینان ہماری بیوی اور بچے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ انہیں سب سے کم وقت دیتے ہیں ، ہنری کا کہنا تھا دنیا میں سب سے بڑی بے وفا چیز ہماری نوکری ، ہماراپیشہ اور ہمارا کاروبار ہوتا ہے ، ہم آج بیمار ہو جائیں ، آج ہمارا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو ہمارا ادارہ شام سے پہلے ہماری کرسی کسی دوسرے کے حوالے کر دے گا ، ہم آج اپنی دکان بند کر دیں ہمارے گاہک کل کسی دوسرے سٹور سے خریداری کر لیں گے ، آج ہمارا انتقال ہو جائے تو کل ہمارا شعبہ ، ہمارا پیشہ ہمیں فراموش کر دے گا لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ دنیا کی سب سے بڑی بےوفا چیز کو زندگی کا سب سے قیمتی وقت دے دیتے ہیں ، ہم اپنی بہترین توانائیاں اس بے وفا دنیا میں صرف کر دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے دکھ درد کے ساتھی ہیں جن سے ہماری ساری خوشیاں اور ہماری ساری مسرتیں وابستہ ہیں اور جو ہمارے ساتھ انتہائی وفادار ہوتے ہیں ہم انہیں فراموش کر دیتے ہیں ، ہم انہیں اپنی زندگی کا انتہائی کم وقت دیتے ہیں۔‘‘
There were tears in Henry's eyes, he hugged his son and burst into tears. Henry in 1999
Wrote an article called "Family Life", I agreed to read this article, in this article he revealed that the most precious thing in the world is the family, the greatest happiness and the greatest satisfaction in the world is ours. There are wives and children but unfortunately we give them the least time, Henry said the biggest unfaithful thing in the world is our job, our profession and our business, we get sick today, we have an accident today. If we go, our company will hand over our chair to someone else before evening. We will close our shop today.
Will shop from another store, if we die today, tomorrow our department, our profession will forget us but unfortunately we give the most unfaithful thing in the world the most precious time of life, we give our The best energies are spent in this unfaithful world and we forget those who are the companions of our sorrows and pains to whom all our joys and all our joys are associated and who are most faithful to us. They give very little time in life. ”
ہنری کی کہانی نے مجھے زندگی کا ایک دوسرا پہلو دکھایا ، مجھے محسوس ہوا ہماری زندگی میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک وہ لوگ جن کے لیئے ہمارا وجود معمول کی چیز ہوتا ہے ، جو ہمیں مشین کی طرح سمجھتے ہیں ، جن کی نظر میں ہم محض ایک کارکن ہیں ، جو ہمیں میز ، کرسی ، ٹیبل لیمپ ، گاڑی ، قلم ، کاغذ ، ٹشو پیپر ، کھڑکی اور دروازے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور جو ہمارے بارے میں کہتے ہیں
’’ استعمال کرو ، پھینکو اور بھول جاؤ ‘‘
Henry's story showed me another side of life, I realized there are two kinds of people in our lives, one for whom our existence is a normal thing, one who treats us like a machine, one whose eyes I am just a worker who does not value us more than desk, chair, table lamp, car, pen, paper, tissue paper, window and door and what they say about us
"Use, throw and forget"
جبکہ دوسری قسم کے لوگ ہمیں اپنے وجود ، اپنی دھڑکنوں اور اپنی سانسوں کا حصہ سمجھتے ہیں ، وہ ہمارے لیئے تکلیف برداشت کرتے ہیں ، وہ ہمارے لیئے ظلم سہتے ہیں ، وہ راتوں کو جاگ کر ہمارا انتظار کرتے ہیں ، وہ ہمارے وعدوں کو آسمانی تحریر سمجھتے ہیں اور جن کی نظر میں ہمارا ایک ایک لفظ مقدس اور پاک ہوتا ہے اور جو ہمارے اصل ساتھی ہوتے ہیں ، میں نے سوچا بدقسمتی سے ہم لوگ پہلی قسم کے لوگوں کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ دے دیتے ہیں ، ہم لوگ زندگی بھر دوسری قسم کے لوگوں کو فراموش کر کے پہلی قسم کے لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ، ہم بےوفا لوگوں سے وفاداری نبھاتے رہتے ہیں اور وفاداروں سے بے وفائی کرتے رہتے ہیں ۔
While other types of people consider us part of their being, their heartbeat and their breath, they suffer for us, they suffer for us, they wake up at night and wait for us, they write our promises in heaven. Understand and in whose eyes every single word of ours is sacred and pure and who are our real companions, I thought unfortunately we give the most precious part of our lives to the first kind of people, we are life Forgetting the second type of people and running after the first type of people, we continue to be loyal to the unfaithful people and continue to be unfaithful to the faithful.
میں نے کسی جگہ امریکہ کے ایک ریٹائر سرکاری افسر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا تھا
اس افسر کو وائٹ ہاؤس سے فون آیا کہ فلاں دن صدر آپ سے ملنا چاہتے ہیں ، اس افسر نے فوراً معذرت کر لی ، فون کرنے والے نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا
’’ میں اس دن اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہوں‘‘
یہ جواب سن کر فون کرنے والے نے ترش لہجے میں کہا
’’ آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں‘‘
ریٹائر افسر نے نرمی سے جواب دیا
’’ نہیں میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں‘‘
فون کرنے والے نے وضاحت چاہی تو ریٹائر افسر نے کہا
’’ مجھے یقین ہے میں جوں ہی وہائٹ ہاؤس سے باہر نکلوں گا تو صدر میرا نام اور میری شکل تک بھول جائے گا جبکہ میری پوتی اس سیر کو پوری زندگی یاد رکھے گی ، میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں ، میں یہ وقت اس پوتی کو کیوں نہ دوں جو اس دن ، اس وقت میری شکل اور میرے نام کو پوری زندگی یاد رکھے گی ، جو مجھ سے محبت کرتی ہے ، جو اس دن کیلئے گھڑیاں گن رہی ہے‘‘
The officer received a call from the White House saying that the president wanted to see you one day. The officer immediately apologized. When the caller asked the reason, he replied.
"I'm going to the zoo with my granddaughter that day."
Upon hearing this answer, the caller said in a sour tone
"You're putting the zoo ahead of the president."
The retired officer replied softly
"No, I'm putting my granddaughter's happiness above the president's."
When the caller asked for an explanation, the retired officer said "I'm sure as soon as I get out of the White House, the president will forget my name and my appearance, while my granddaughter will remember this trip for the rest of her life. Why should I make a loss-making deal? Why not give one who will remember my form and my name for the rest of my life, who loves me, who is counting the hours for this day? '
میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر کے دیر تک سوچتا رہا ، ہم میں سے 99 فیصد لوگ زندگی بھر گھاٹے کا سودا کرتے ہیں ، ہم لوگ ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات دے دیتے ہیں جن کی نظر میں ہماری کوئی اوقات ، ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، جن کیلئے ہم ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ، جو ہماری غیر موجودگی میں ہمارے جیسے کسی دوسرے شخص سے کام چلا لیتے ہیں ، میں نے سوچا ہم اپنے سنگدل باس کو ہمیشہ اپنی اس بیوی پر فوقیت دیتے ہیں جو ہمارے لیئے دروازہ کھولنے ، ہمیں گرم کھانا کھلانے کے لیئے دو ، دو بجے تک جاگتی رہتی ہے ، ہم اپنے بے وفا پیشے کو اپنے ان بچوں پر فوقیت دیتے ہیں جو مہینہ مہینہ ہمارے لمس ، ہماری شفقت اور ہماری آواز کو ترستے ہیں ، جو ہمیں صرف البموں اور تصویروں میں دیکھتے ہیں ، جو ہمیں یاد کرتے کرتے بڑے ہوجاتے ہیں اور جو ہمارا انتظار کرتے کرتے جوان ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ہمارا قرب نصیب نہیں ہوتا ، ہم انہیں ان کا جائز وقت نہیں دیتے.
پھر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں ۔
When I read this story, I leaned back in my chair and closed my eyes and thought for a long time. 99% of us deal with losses for the rest of our lives. Given to those in whose eyes we have no time, we have no importance, for whom it doesn't matter whether we are or not, who in our absence work with someone else like us, I thought we were our own The heartless boss always gives priority to his wife who stays up till two o'clock to open the door for us, to feed us hot food.
We prioritize our unfaithful profession over our children who year after month yearn for our touch, our compassion and our voice, who see us only in albums and pictures, who grow up remembering us and who wait for us. They get younger but they don't get close to us, we don't give them their due time.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں